کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَتُہ المَوت۔
تلہ گنگ کے محلہ جھنگی کا جوان محمد فیاض…
جس نے کبھی نہ سوچا ہوگا کہ وہ اپنے پیاروں کو یوں اچانک چھوڑ کر چلا جائے گا۔
کام سے تھکا ہارا جب گھر لوٹا، تو دن کا کھانا کھا کر بستر پر آرام کرنے چلا گیا۔
شاید چین کی نیند سو گیا ہوگا، لیکن…
لیکن چار بجے کے قریب گھبراہٹ سے اس کی آنکھ کھل گئی۔
سینے میں درد، دل میں بے چینی، جیسے زندگی کا بوجھ اس کے وجود پر سوار ہو۔
گھر والوں کو کیا معلوم تھا کہ وہ لمحہ ان کی زندگی کا سب سے خوفناک لمحہ بن جائے گا۔
سینے میں درد لیے، فیاض کو تلہ گنگ کے سٹی ہسپتال لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے بتایا کہ یہ دل کا دورہ ہے۔
مگر علاج؟
ہاں، وہ علاج جو وہاں موجود نہیں تھا!
ایک بار پھر ڈاکٹر نے پیچھے ہٹاتے ہوئے راولپنڈی جانے کا مشورہ دے دیا، جیسے ان کی ذمہ داری ختم ہو چکی ہو۔
فیاض کا دل تو جیسے دھڑکنا چھوڑ رہا تھا، لیکن ڈاکٹر؟ وہ تو اپنی ذمہ داری سے منہ موڑ چکے تھے۔
دوستوں کی مدد سے ایمبولینس کا بندوبست کیا گیا، لیکن فیاض کی حالت بگڑتی جا رہی تھی۔
بغیر کسی ابتدائی طبی امداد کے، اسے راولپنڈی لے جانے کی کوشش کی گئی۔
مگر…
بلکسر پہنچنے سے پہلے، فیاض کی سانسیں تھم گئیں۔
اس کا سفر ہمیشہ کے لیے رک گیا…
ایک اور گھر کا کفیل دنیا سے رخصت ہو گیا۔
اب… اب یہ سوال ہے کہ اصل قصور وار کون ہے؟
کیا تلہ گنگ کے سرکاری ہسپتالوں میں دل کے دورے کا ابتدائی علاج ممکن نہیں؟
کیا کڑوڑوں روپے لگا کر بنایا گیا ٹراما سنٹر اب تک کیوں فعال نہیں ہو سکا؟
کیا ایک دل کا ایمرجنسی ڈاکٹر یا مشینوں کا انتظام کرنا اتنا مشکل ہے؟
یہ سوالات دل میں تڑپ پیدا کرتے ہیں، آنکھوں میں نمی لے آتے ہیں۔
کتنی مائیں اپنے بیٹوں کی جدائی میں آنسو بہائیں گی؟
کتنے بچے اپنے والد کے سایے کو ترسیں گے؟
کتنے جنازے اٹھائے جائیں گے، تب جا کر ہمارے حکمران جاگیں گے؟
یہ سوچنا بھی دل کو دہلا دیتا ہے کہ ہم کب تک اس بے حسی کا شکار رہیں گے؟
محمد فیاض کا قصور کیا تھا؟
بس یہی کہ وہ تلہ گنگ کے ایک عام شہری تھا؟
تحریر فیضان شیخ