Loading...
tr usd
USD
-0.04%
Amerikan Doları
35,19 TRY
tr euro
EURO
-0.11%
Euro
36,71 TRY
tr gbp
GBP
0.7%
İngiliz Sterlini
44,32 TRY
gau
GR. ALTIN
-0.04%
Gram Altın
2.967,33 TRY

شاہ مرادؒ

featured
service
Share

Share This Post

or copy the link

شاہ مرادؒ
✍🏻 علی خان

اب سے لگ بھگ چار صدیاں قبل کی ایک رات چکوال کے علاقے دھن میں ایک بلند ٹیلے پر رُشد و ہدایت کے ایک روشن چراغ سخی سیدن شاہ شیرازیؒ جلوہ افروز تھے۔ یہ ایک سرد اور تاریک رات تھی مگر آج رات ایک ایسا ماہتاب طلوع ہونے کو تھا کہ جس نے اپنی روشنی سے کوہستان نمک کے دامن میں پھیلے ان علاقوں کے باسیوں کے دِل منور کرنا تھا۔

سخی سیدن شاہ شیرازیؒ عالم استغراق میں تھے کہ دفعتاً ان کے تپش خانہ (مچ)کی آگ بجھ گئی اور ان کے ارد گرد روشن چراغ بجھ گئے۔ یہ قریباً پندرہ فٹ اونچا ایک ٹیلہ تھا اور مقامی لوگ اسے ”چکی“کہتے تھے۔ اس مقام سے نہ صرف خان پور کا قریبی گاؤں بلکہ اس علاقے کے گرد دور دور تک پھیلے کوہستان نمک کا منظر بھی دکھائی دیتا تھا۔ کوہستان نمک کے سلسلے میں موجود اس چھوٹی سی وادی کو دلجبہ کی وادی بھی کہا جاتا ہے جس کا مطلب ”دل کا ٹکڑا“ کہے جاتے ہیں۔ خان پور قصبہ وادی دلجبہ اور علاقہ دھن کے نقطہء اتصال پر واقع ہے۔ اس رات اچانک گاؤں کے سارے چراغ یک لخت گُل ہو گئے تھے۔

سخی سیدن شاہ شیرازی ؒکے تپش خانہ کی آگ اور چراغوں کی روشنی بجھ گئی تو کچھ دیر بعد آپ کو سردی اور اندھیرے کا احساس ہوا۔ آپ گذشتہ سات روز سے اسی ٹیلے پر قیام پذیر تھے اور چند کوس دور واقع قصبہ چوہان سیداں سے سفر کر کے یہاں پہنچے تھے۔ آپ نے اپنے خلفاء اور مریدین کو حکم دیا کہ جاؤ اور دیکھو کہ کیا کسی کے گھر میں کوئی چراغ روشن ہے یا نہیں۔آپ کے حکم کی تعمیل میں گاؤں جا کر تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ خان پور کے مشرقی محلے میں مولوی جان محمد کے گھر کا چراغ روشن ہے۔ کیونکہ تھوڑی دیر پہلے ان کے ہاں ایک بچے نے جنم لیا ہے اور اس کی پیدائش کے وقت گاؤں کے تمام چراغ گل ہو گئے تھے۔ حضرت سخی سیدن شاہ شیرازیؒ (چوآسیدن شاہ) کا یہ سننا تھا کہ فوری حکم دیاابھی اٹھو اور سامان باندھو کہ اب یہاں ہمارے قیام کی گنجائش نہیں ہے۔ تصوف کی روایت میں یہ ایک صوفی کا دوسرے صوفی کے لیے میدان خالی کر دینا سمجھا جاتا ہے۔ سخی سیدن شاہ شیرازیؒ اسی رات خان پور سے موضع کھوتیاں (سہگل آباد) چلے گئے مگر مولوی جان محمد کوبتا دیا کہ نو مولود بڑے پائے کا ولی اور صاحب کرامات بزرگ ہوگا لہٰذا اس کی پرورش پر خاص توجہ دینا۔

یہ واقعہ دھن دھرتی کے عظیم صوفی شاعر حضرت شاہ مراد خان پوریؒ کی پیدائش کا ہے۔ پھر زمانے نے دیکھا کہ حضرت سخی سیدن شاہ شیرازیؒ کی پیشن گوئی پوری ہوئی اور شاہ مرادؒ تصوف کے میدان میں آفتاب بن کر چمکتے رہے۔ ان کے صوفیانہ کلام کو بھی ابدیت نصیب ہوئی۔ شاہ مراد ؒکے دنیا سے رُخصت ہو جانے کے قریب سوا صدی بعد پیدا ہونے والے میاں محمد بخش ؒنے انہیں کچھ اس انداز سے خراج تحسین پیش کیا ہے۔

شاہ مراد جنے، جہئے کتھے سخن مُراداں والے
محبوباں دے گھنڈ لہاون واہ مستاں دے چالے

پنجابی کے عظیم سخن ور میاں محمد بخش ؒ کا یہ شعر پہلے مصرعے میں شاہ مراد ؒ کی شعری عظمت کا اعتراف کرتا ہے جبکہ دوسرا مصرعہ میدان تصوف میں ان کے مقام کو ظاہر کرتا ہے۔ سیف الملوک جیسی شاہکار کتاب کے خالق اور صوفی بالصفا میاں محمد بخش ؒخود شاہ مراد ؒکی وفات کے 128 سال بعد پیدا ہوئے تھے۔ مگر ان کے کلام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت شاہ مراد ؒکی وفات کو طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کی شاعری کو بہت شہرت حاصل تھی اور وہ عوام الناس کو اَزبر تھی۔

حضرت میاں محمد بخش کے شعر کے دوسرے مصرعے میں جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ شاہ مراد ؒعالم جذب میں اپنے ارد گرد سے گزرنے والی بارات سے دلہن کا گھونگٹ اُلٹنے کا مطالبہ کرتے تھے۔ شاہ مراد ؒکے فقر و فاقہ کا ایک زمانہ معترف تھا چنانچہ ان کی اس ادا کو باعث فخر سمجھا جاتا تھا اور باراتی اس پر نہایت خوش ہوتے۔ آج بھی چکوال کے علاقے دھن، لنڈی پٹی اور جھنگڑ میں آپ کی مریدین کی بڑی تعداد آباد ہے۔

سترھویں صدی عیسوی میں حضرت شاہ مراد ؒکا جنم چکوال کے علاقہ دھن کے معروف قصبہ خان پور کے محلے قاضیاں میں ہوا۔ محتاط اندازے کے مطابق آپ کی پیدائش1627ء میں ہوئی۔ یہ مغل شہنشاہ جہانگیر کا عہد تھا۔آپ کے بچپن اور جوانی کا کچھ حصہ شاہجہان کے عہد میں گزرا تاہم آپ کو اورنگزیب عالمگیر کا ہم عصر کہا جاتا ہے۔ اورنگزیب عالمگیر کا عہد 1658ء سے 3 مارچ 1707ء تک رہا ہے۔ حضرت شاہ مراد ؒ کا سنِ وصال 1702 ء یا 1114 ہجری کہا جاتا ہے اور بیشتر محققین اس پر متفق ہیں۔

آپ قریشی صدیقی تھے۔ آپ کے والد گرامی کا نام جان محمد اور دادا کا نام محمد شیر تھا۔ پردادا کا نام لطیف اللہ تھا۔ آپ کا شجرہ نسب اکیس واسطوں سے ہوتا ہوا حضرت ابو بکر صدیق سے جا ملتا ہے۔ آپ کا مکمل شجرہ نسب اب تک محفوظ ہے۔ آپ روحانی طور پر قادری بشندُوری سلسلہ سے تھے۔آپ کا شجرہ طریقت حضرت شیخ عبدالرحمان بشندُوری سے ہوتا ہوا حضرت جُنید بغدادی ؒ سے حضرت خواجہ حسن بصری ؒتک ہے۔ حضرت شاہ مراد ؒکے بچپن کے حالات دستیاب نہیں ہیں تاہم پروفیسر انور بیگ اعوان کی اردو مجلس چکوال کے زیر اہتمام 1966 ء میں شائع ہونے والی کتاب ”سبزہ بیگانہ“کے مطابق حضرت شاہ مراد ؒ نے اپنی تعلیم بھیرہ کے کسی دارالعلوم سے مکمل کی۔ 1996 ء میں شائع ہونے والی کتاب ”سُخن شاہ مراد“ کے مصنف صاحبزادہ سلطان علی ذوالفی اس سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس بات کو حضرت شاہ مرادؒ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد مسترد کرتے ہیں اور ان کا کہنا یہ ہے کہ اس وقت خان پور اور موضع پنجائن میں موجود دارالعلوم علم و فضل کے لحاظ سے بہت اعلیٰ تھے۔ یہ دارالعلوم اس قدر بہترین تھے کہ وسط ایشیا کی ریاستوں سے بھی طلباء یہاں تحصیل علم کے لیے آتے تھے چنانچہ حضرت شاہ مرادؒ کا بھیرہ تحصیل علم کے لیے جانا درست معلوم نہیں ہوتا البتہ کچھ عرصہ آپ کٹاس راج میں ایک ہندو دوست کے ہاں جایا کرتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ آپ نے انیس سال کی عمر میں اپنے شیخ محمد عبدالرحمان بشندُوریؒ سے سلوک اور مشاہدے کے لیے رجوع کیا اور یہ سفر قابل ذکر بھی ہے اور تاریخی بھی۔

صاحبزادہ سلطان علی ذوا لفی لکھتے ہیں کہ ان کی
”مختلف بزرگ شخصیات سے ہونے والی گفتگو سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت شاہ مرادؒنے بچپن میں تعلیم اپنے گھر سے حاصل کی تھی۔ انہوں نے فارسی اور عربی زبان کا علم موضع پنجائن میں معروف اور مشہور زمانہ عالم دین مولانا غیاث الدین تاشقندی ؒسے حاصل کیا اور سلوک کی منازل حضرت محمد عبدالرحمان بشندُوری ؒکی اعانت میں طے کیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ آپ جب کبھی خان پور سے پشندور جاتے تو پہلا پڑاؤ جرموٹ کلاں کرتے۔ جرموٹ کلاں میں وہ راجہ فضل داد کے گھر قیام کرتے۔ آپ کے بچپن اور جوانی میں کئی کرامات کا تذکرہ کتب میں موجود ہے۔ آپ کی شادی اپنے ہی خاندان میں ہوئی تھی اور آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی۔ آپ کی بیٹی کا نام بی بی کاکوتھا۔ محتاط اندازے کے مطابق آپ کا وصال 71 برس کی عمر میں 1702ء بمطابق 1114 ہجری میں ہوا۔ آپ کا مدفن موہڑہ نجاراں (تکیہ شاہ مراد) میں ہے“۔

مختلف ذرائع سے ملنے والے غیر مستند شواہد کے مطابق آپ نے تین بادشاہوں جہانگیر، شاہجہان اور عالمگیر کا دور دیکھا۔ آپ کے مزار پر ہر سال 9 ذوالحج کو عرس منایا جاتا ہے۔ آپ کا مزار از سر نو آپ کے خاص مرید ملک عطر خان نے 1952ء میں تعمیر کرایا تھا۔ مزارکی تعمیر میں مزار کی چار دیواری اور صدر دروازے کو سنگ ِسرخ سے بنایا گیا ہے۔ جس پر تین ہزار روپے لاگت آئی۔ یہ تعمیر تکیہ شاہ مراد کے معروف مستری اور سنگ تراش شیر محمد نے کی تھی۔ آپ کو فارسی، اردو، عربی اور پنجابی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ آپ پر جذب کا عالم طاری ہوتا تو آپ شعر کہنا شروع کر دیتے تھے۔ یہ شعر ان کے ہمراہی لکھ لیتے یا یاد کر لیتے تھے۔ چنانچہ بعض میں تفاوت موجود ہے۔

حضرت شاہ مراد ؒکو غزل کے اولین شعراء میں شمار کیا جاتا ہے مگر ضروری نہیں کہ انھیں صرف اُردو کے غزل گو شاعر کہا جائے۔ عام طور پر ولی دکنی کو اردو کا پہلا غزل گو شاعر کہا جاتا ہے مگر شاہ مراد ؒولی دکنی سے 45 سال پہلے پیدا ہوئے تھے اور اس سے ظاہر ہے کہ وہ یقینی طور پر اس صنف پر پہلے سے مشق آرا ء تھے چنانچہ ایساکہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ شاہ مراد ؒنے پنجابی اور فارسی میں بھی مشق سخن کیا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وہ برصغیر پاک و ہند اردو غزل گوئی کے پہلے اور نامور شعرا ء میں سے ایک تھے بلکہ پنجابی اور فارسی شاعری پر بھی انہیں ملکہ حاصل تھا۔

حضرت شاہ مراد ؒ کامل صوفی تھے۔ آپ نے اپنے عہد کی مروجہ تمام اصناف سخن میں کلام کیا۔ آپ کے کلام میں عشق حقیقی اور جذب و مستی کے رنگ تو تھے ہی مگر آپ نے اپنے زمانے کے پر آشوب حالات کو بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ حضرت شاہ مراد ؒ کا عہد علامتی شاعری کا تھا چنانچہ آپ نے بھی اس کا سہارا لیا۔ عشقِ حقیقی کو عشق ِمجازی کے رنگ میں پیش کرنے کے لیے آپ نے پنجابی کے دیگر شعرائے کرام کی طرح اپنے مرشد کو پنوں، رانجھا اور مہینوال جب کہ اپنی روح کو ہیر، سسی اور سوہنی کے ناموں سے پکارا ہے۔

دھن دھرتی کے اس عظیم صوفی شاعر کا مزار دلجبہ کی دلکش وادی کے آغاز میں ہے اور یہ مقام اب تکیہ شاہ مراد کہلاتا ہے۔ یہی مقام آپ کے زمانے میں آپ کی مذہبی اور علمی و ادبی سر گر میوں کا مرکز رہا ہے۔ آپ کا پہلا مدفن اس مقام سے کچھ دور تھا مگر بعد ازاں آپ کا مزار موجودہ مقام پر منتقل کیا گیا۔ خان پور میں وہ مکان اب بھی موجود ہے جہاں آپ کی پیدائش ہوئی تھی۔ اس علاقے کے بزرگوں کو آپ کا کلام اپنی اصل زبان میں ازبر رہا ہے۔ آپ کے مزار کے احاطے میں آپ کے عزیز و اقارب کی قبریں موجود ہیں۔

9ذوالحج کو شاہ مرادؒ کے عرس پر اس پُر سکوت وادی پر چھایا سکوت ٹوٹ جاتا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں آنے والے شاہ مراد ؒکے متوالے انہیں اپنے اپنے رنگ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ چاندنی راتوں میں بابا شاہ مراد ؒکے متوالے اب بھی ان کے مزار پراپنی عقیدت کے پھول نچھاور کرتے ہیں۔ بابا شاہ مراد ؒکے کلام سے منتخب نمونہ کلام یہ ہے۔

وحدت نامہ
ہِک سچا صاحب ہر جا دُوجانہ ہور وَر
وچ شہریں باغیں جنگل کوئیں بحر و بَر
وچ کثرت وحدت عشق الہٰی ویکھیں اکھیں کھول کر
جُوں مُوسیٰؑ ویکھ پہاڑ تجلی ہویا مست جھر

اَنا احمدؐ بے میم کہیا نبی محمد رسولؐ بھی
سبحانی مااعظم شانی کہندا قول بھی
منصور موّحد وحدت بولے اے پسر
سُن وحدت نامہ ویکھ نہ ہوویں کورَ کر

ہِک آکھن نال زباناں عربی فارسی!
ہک مُول نہ سمجھن کور کے جانن آر سی!
سن آکھاں نال زبانے ہندی سہل تَر!
الفاظ سُوکھالے معنے چنگے جوں کُھلائے در!
(سخن شاہ مرادؒ صفحہ 110)

٭٭٭

شُتر نامہ

عشق شتر کیا مست دَسیوے بھارے بھارپئے محمل
تے دُوروں نظر ڈراوے لوکاں رہنا کول کھڑا مُشکل

وڈا قد تے وڈی گردن سر رہیا آسمانے مَل
آہ مہارتے آتش مُہرا حیرت اکھیاں دردی دل

عاشق پکڑ مُہار چراون سینہ جنگل لاہنڑاں دل
مستی نال نہ کھاوے پیوے گھڑی وچ ونیدا سو منزل

چن سورج دو گل وچ ٹلیال گھڑی گھڑی بولن یا بسمل
کُرسی عرش کچاوہ بنیا وچ محبوب بیٹھا خورشید مِثل

حرف عِشق دا کہیں نہ آوے قاضی مُفتی تے فاضل
شاہ مُرادؔ مُہار نہ چھوڑیں آسان تھیسن سب مُشکل
(سخن شاہ مرادؒ صفحہ 111)

نوٹ۔ یہ مضمون علی خان کی کتاب ” دھنی کے صوفی شعراء ” سے اقتباس ہے۔ تفصیلی معلومات کے لیے مذکورہ کتاب ملاحظہ فرمائیں۔ کتاب میں علاقہ دھن کے سات صوفی شعراء کے حالات زندگی لکھے گئے ہیں

شاہ مرادؒ
You can subscribe to our newsletter completely free of chargeCommunity Verified icon
Don't miss the opportunity and start your free e-mail subscription now to be informed about the latest news.

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Login

Global Eye Log in or create an account now to benefit from its privileges, and its completely free.!

Bizi Takip Edin