تعلیمی اداروں میں حالیہ واقعات کی تحقیقات سے متعلق فل بنچ بنانے کا فیصلہ
لاہور: (محمد اشفاق) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے تعلیمی اداروں میں حالیہ واقعات کی تحقیقات سے متعلق فل بنچ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ عالیہ نیلم نے تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے واقعات کی تحقیقات کیلئے دائر درخواست پر سماعت کی، اس موقع پر عدالتی حکم پر آئی جی پنجاب سمیت دیگر افسران عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب ویڈیوز کو وائرل ہونے سے روکا کیوں نہیں گیا؟ کیا آپ نے ویڈیوز روکنے کیلئے کسی اتھارٹی سے رابطہ کیا، جس پر آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ ہم نے پی ٹی اے سے رابطہ کیا۔
چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے مکالمہ کیا کہ آج 18 تاریخ ہے، ویڈیوز 13 اور 14 کو وائرل ہوئی، آپ نے جاگنا تب ہوتا ہے جب آگ لگ چکی ہوتی ہے سب جل چکا ہوتا ہے۔
عدالت نے آئی جی سے استفسار کیا کہ آپ نے متعلقہ اتھارٹیز سے بہت تاخیر سے رابطہ کیا، آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ 700 سے زائد اکاؤنٹس سے ویڈیوز وائرل ہوئیں، پولیس کے پاس سائبر کرائم کو دیکھنے کیلئے صرف ایک ادارہ ہے۔
جس پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ آئی جی صاحب یہ آپ کی ناکامی ہے آپ نے بچوں کو سڑکوں پر آنے دیا، آپ ہمیں دو دن کا حساب دیں کہ 14 اور 15 اکتوبر کو آپ نے کیا کیا، آج بھی ایکس اور ٹک ٹاک پر ویڈیوز پڑی ہیں، دو دن آپ نے کچھ نہیں کیا آپ انتظار کرتے رہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ آپ نے جو دستاویزات جمع کرائی ہیں، اس کے بعد آپ نے دو دن کچھ نہیں کیا اور 16 اکتوبر سے کام شروع کیا، نیت ہو تو سب کام ہو جاتے ہیں جس پر آئی جی پنجاب نے مؤقف اپنایا کہ ڈیٹا کو اپلوڈ ہونے سے روکنا اتنا آسان نہیں ہوتا نا ہی ہمارے پاس اتھارٹی ہے، ہم ایک اکاؤنٹ سے روکیں گے تو دوسرے سے ری پوسٹ ہوجاتی ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ جو بچیاں سڑکوں پر آئیں اگر انہیں کچھ ہوجاتا تو کون ذمہ دار تھا؟
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ 12 اکتوبر کو ایک انسٹا گرام پوسٹ سے کہا گیا کہ نجی کالج میں لڑکی کا ریپ ہوا، اسی دن ایس ایس پی متعلقہ کیمپس میں پہنچے اور تحقیقات شروع کیں، فرسٹ ایئر کے بچوں کے اپنے واٹس ایپ گروپ ہیں جن پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں ہے، ہر گروپ میں انسٹا گرام پوسٹ شیئر ہوئی مگر کسی کو معلوم نہیں تھا کہ ہوا کیا ہے۔
آئی جی پنجاب نے مزید کہا کہ پولیس نے 700 سے زائد اکاؤنٹس کی شناخت کی، انگلینڈ میں بھی اپلوڈ روکنے کی طاقت نہیں ہے جس پر جسٹس عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ وہاں کی بات مت کریں۔
آئی جی پنجاب نے مؤقف اپنایا کہ ہم نے وزارت داخلہ سے بات کی، انہیں مراسلے لکھے، 700 سے زائد اکاؤنٹس پر یہ ویڈیوز چل رہی تھیں، ان کو بند کرنے کا اختیار پی ٹی اے کے پاس ہے، ہمارے پاس جتنی اتھارٹی ہے، ہم اس پر کام کرنا شروع ہوگئے تھے، ہم نے کچھ اکاؤنٹس کی شناخت کی، وہ ابھی تک ڈیلیٹ نہیں ہوئے۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ اگر ارادہ ہو تو سارے کام ہوتے ہیں، ہمارا کیوں ارادہ نہیں تھا۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ علاقے کے اے ایس پی کالج پرنسپل سے ملے، سی سی ٹی وی چیک کیا، ہر بچہ کہہ رہا تھا کہ زیادتی ہوئی ہے مگر کسی کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، دوسرے کیمپس کے بچے بھی اس کیمپس پہنچ گئے، ایک منتظم طریقے سے یہ سب کچھ ہوا۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ توڑ پھوڑ ہوئی تو وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ایک سپیشل کمیٹی تشکیل دی، پیر کے دن تک کوئی زیادتی کا شکار سامنے نہیں آیا، افواہ یہ ہے کہ مبینہ زیادتی 9 یا 10 اکتوبر کو ہوئی۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ 2 اکتوبر کو ایک بچی کا لاہور جنرل ہسپتال میں علاج ہوا، 4 اکتوبر کو یہ بچی ایک نجی ہسپتال میں جاتی ہے، بچی 5 دن آئی سی یو رہی، صرف یہ ایک بچی کالج نہیں آرہی تھی تو کسی نے کہا کہ ہمیں زیادتی کا شکار بچی مل گئی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا کہنا تھا کہ صرف اس بنا پر کہ بچی کالج نہیں آ رہی اسے زیادتی کی افواہ سے جوڑ دیا گیا ہے، اگر آپ کہیں گی تو میں آپ کی اس بچی سے ملاقات کروا سکتا ہوں۔
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے مزید مؤقف اپنایا کہ ایک اور صاحب نے جو خود کو وکیل کہتے ہیں ان بچیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ایک ویڈیو بنائی، اس وکیل کو مجسٹریٹ کی جانب سے مقدمے سے بری کر دیا گیا، مقدمے سے بری کرنے کا نیا رواج چل پڑا ہے، ہم جسے گرفتار کرتے ہیں وہ اگلے دن ہیرو بن جاتا ہے، ہم شاید اتوار کے دن تعین نہیں کر سکے کہ اتوار کو کیا ہونے جا رہا ہے۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے ریمارکس دیئے کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ ایک منظم طریقے سے ہوا، مگر جب یہ ہوا موقع پرستوں نے اس سے فائدہ اٹھایا۔
لاہور ہائیکورٹ نے حالیہ واقعات اور سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے حوالے سے فل بنچ بنانے کا فیصلہ کر لیا، چیف جسٹس لاہور ہائیکوٹ عالیہ نیلم کا کہنا تھا کہ منگل کے روز فل بنچ ان کیسز پر سماعت کرے گا۔
انہوں نے حکم دیا کہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) ان حالیہ واقعات کے حوالے سے تفتیش کریں، بعدازاں عدالت نے ڈی جی ایف ائی اے کو اگلی سماعت پر ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا۔
**Recent Developments: Decision to Form Full Bench for Investigating Recent Incidents in Educational Institutions****Lahore:** (Muhammad Ashfaq) The Chief Justice of the Lahore High Court has decided to form a full bench to investigate recent incidents in educational institutions.During the hearing of a petition regarding harassment incidents in educational institutions, Chief Justice Aliya Neelam questioned the IG Punjab and other officials present in court. The Chief Justice asked the IG why the videos were not prevented from going viral, to which the IG Punjab responded that they contacted the PTA.The Chief Justice remarked, “Today is the 18th; the videos went viral on the 13th and 14th. You only wake up when the fire has already caused damage.” The court inquired why the IG had contacted the relevant authorities so late. The IG Punjab explained that over 700 accounts had shared the videos, and the police had only one body to monitor cybercrime.The Chief Justice stated, “This is your failure; you allowed children to take to the streets. Give us an account of what you did on the 14th and 15th of October. Even today, videos are still available on X and TikTok. You did nothing for two days; you just waited.”The Chief Justice pointed out that after submitting documents, no action was taken for two days, and work only began on October 16. “If there is will, everything can be done,” she emphasized. The IG Punjab argued that preventing data from being uploaded was not easy, and even in England, they lack the authority to stop it.The Chief Justice responded, “Don’t compare with them.” The IG Punjab continued that they had contacted the Ministry of Interior and written letters, but the authority to shut down the 700 accounts lay with the PTA.The Chief Justice asked the Advocate General of Punjab who would be responsible if anything happened to the girls who went to the streets. The Advocate General explained that an Instagram post on October 12 claimed a girl was raped at a private college, leading the relevant SSP to investigate the campus the same day. However, students on WhatsApp groups had no control over the information being shared, and no one knew what had truly happened.The IG Punjab further stated they had identified over 700 accounts, and even in England, they couldn’t stop uploads. The Chief Justice retorted, “If there is intent, things can get done; why was there no intent here?”The Advocate General elaborated that the local ASP met with the college principal and reviewed CCTV footage, but while many claimed rape had occurred, no one had evidence. Other campus students arrived as well, leading to chaos. He mentioned that the Chief Minister, Maryam Nawaz, formed a special committee after the unrest, but no confirmed case of rape had emerged by Monday. The rumor suggested that the alleged incident occurred on October 9 or 10.The Advocate General added that a girl had received treatment at Lahore General Hospital on October 2 and later at a private hospital, spending five days in ICU. It was only because she wasn’t attending college that rumors of her being a rape victim started circulating.The Advocate General also pointed out that a lawyer, claiming to represent the victims, created a video, but he was acquitted by the magistrate. The Chief Justice remarked that while they don’t claim this was a coordinated effort, opportunists took advantage of the situation.The Lahore High Court decided to form a full bench to address recent incidents and the spread of fake news on social media. Chief Justice Aliya Neelam stated that the full bench would hear these cases on Tuesday. She ordered the Director General of the Federal Investigation Agency (FIA) to investigate these recent events, summoning the DG FIA to appear in person at the next hearing.